آیت:6

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

"بے شک جنہوں نے کفر کیا، ان کے لیے برابر ہے، چاہے آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔"

پچھلی آیات میں ہدایت یافتہ لوگوں کی صفات اور کامیابی بیان کی گئی تھی۔ اب ایک بالکل مختلف گروہ کا ذکر ہو رہا ہے: وہ لوگ جو ہدایت سے منہ موڑ چکے ہیں۔یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ "کافر" یعنی جنہوں نے جان بوجھ کر حق کو رد کر دیا، ان پر نصیحت اثر نہیں کرے گی۔ چاہے انہیں ڈرایا جائے یا نہ ڈرایا جائے، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔یہ آیت ہمیں ہدایت کے قوانین، انسانی نفسیات، اور ایمان و کفر کے انجام کے بارے میں ایک گہری حقیقت سے روشناس کر رہی ہے۔  یہ آیت ہمیں صرف ماضی کے کفار کے بارے میں نہیں بتا رہی، بلکہ یہ ہر دور کے ہر شخص کے لیے ایک آئینہ ہے!

کفر کیا ہے؟

کفر صرف انکار نہیں، بلکہ جان بوجھ کر سچ کو دبانے کا عمل ہے!عربی میں "کفر" کا مطلب "چھپانا، ڈھانپنا" ہے، جیسے ایک کسان بیج زمین میں دباتا ہے۔  اسی طرح، جو لوگ حق کو دیکھ کر بھی ضد اور تکبر کی وجہ سے اسے چھپا دیں، وہی حقیقی کافر ہیں۔

ہدایت کا پہلا اصول ہے کہ اگر ہم حق کو دبائیں گے، تو اللہ بھی ہمارے دل کو تاریک کر دے گا!  یہاں ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم بھی اللہ کی کسی ہدایت کو جانتے ہوئے اس سے منہ موڑ رہے ہیں؟   کیا ہم دین کی کسی بات کو جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں؟   اگر ہاں، تو یہ کفر کی ایک ابتدائی صورت ہو سکتی ہے!

نصیحت کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟

یہاں اللہ ہمیں ایک اہم نفسیاتی حقیقت سکھا رہے ہیں: ہدایت کی قبولیت صرف نصیحت سے نہیں ہوتی، بلکہ دل کی حالت سے ہوتی ہے! کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ خواہ انہیں کتنا ہی سمجھایا جائے، ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا!ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا مسئلہ دلائل کا ہے؟ نہیں!  کیا مسئلہ نبیﷺ کے سمجھانے کے انداز کا ہے؟ نہیں!  مسئلہ ان کے دل کی سختی کا ہے!

یہ آیت ہمیں متنبہ کر رہی ہے کہ اگر کوئی بار بار نصیحت کو رد کرتا رہے، تو اس کا دل سخت ہو جاتا ہے!یہ ہمیں ایک عملی سبق دے رہی ہے کہ اگر ہم دین کی نصیحتوں کو بار بار ٹالیں گے، تو ایک دن ایسا بھی آ سکتا ہے کہ وہ نصیحتیں ہمارے دل پر اثر ہی نہ کریں!یہی وہ مقام ہوتا ہے جب اللہ کہتا ہے: "اب انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، کوئی فرق نہیں پڑے گا!"

ایمان کا دروازہ کیوں بند ہو جاتا ہے؟

یہاں سب سے خوفناک حقیقت بیان کی جا رہی ہے:  "لَا يُؤْمِنُونَ" – "وہ ایمان نہیں لائیں گے!"  یہ کس لیے؟ کیا اللہ نے زبردستی ان پر ایمان کا دروازہ بند کر دیا؟ نہیں! بلکہ یہ لوگ خود اپنے فیصلوں کے نتیجے میں ہدایت سے محروم ہوئے!قرآن میں ایک اور جگہ یہی قانون بیان ہوا ہے:

"ثُمَّ ٱنصَرَفُوا۟ صَرَفَ ٱللَّهُ قُلُوبَهُم بِأَنَّهُمْ قَوْمٌۭ لَّا يَفْقَهُونَ" (التوبہ: 127)

"پھر جب وہ خود منہ موڑ لیتے ہیں، تو اللہ ان کے دلوں کو پھیر دیتا ہے، کیونکہ وہ سمجھنے والے نہیں ہیں!

یہاں ایک زبردست نکتہ ہے:اگر کوئی خود ہدایت سے منہ موڑ لے، تو اللہ بھی اس کے دل کو پھیر دیتا ہے!یہ ایک اصول ہے: اگر ہم حق کو رد کریں گے، تو حق ہم سے دور ہوتا جائے گا!یہی وہ خوفناک کیفیت ہے جہاں نصیحت بے اثر ہو جاتی ہے، اور انسان ہمیشہ کے لیے گمراہی کے اندھیروں میں چلا جاتا ہے!

گمراہی کی جانب سفر – دل کی سختی کیسے بڑھتی ہے؟

یہ آیت ہمیں ہدایت کے رد کیے جانے کا ایک پورا پروسیس سمجھا رہی ہے: